یارب چمن نظم کو گلزارِ ارم کر

 

یارب چمنِ نظم کو گلزارِ ارم کر

تو فیض کا مبدأ ہے توجہ کوئی دم کر

1

اے ابرِ کرم خشک زراعت پہ کرم کر!

گمنام کو اعجاز بیانوں میں رقم کر

جب تک یہ چمک مہر کے پر تو سے نہ جائے

اقلیمِ سخن میرے قلمرو سے نہ جائے

ہر باغ میں چشمے ہیں ترے فیض کے جاری

ہر نخل برو مند ہے یا حضرتِ باری

2

بلبل کی زباں پر ہے تری شکر گزاری

پھل ہم کو بھی مل جائے ریاضت کا ہماری

وہ گل ہوں عنایت چمنِ طبعِ نِکو کو

بلبل نے بھی سونگھا نہ ہو جن پھولوں کی بو کو

غوّاصِ طبیعت کو عطا کر وہ لآلی اک ایک لڑی نظمِ ثریا سے ہو عالی 3 ہو جن کی جگہ تاجِ سرِ عرش پہ خالی عالم کی نگاہوں سے گرے قطبِ شمالی

سب ہوں دُرِ یکتا، نہ علاقہ ہو کسی سے

نذر اُن کی یہ ہوں گے جنھیں رشتہ ہے نبیؐ

بھر دے دُر ِمقصود سے اس دُرجِ دہاں کو

آگاہ کر انداز ِ تکلّم سے جہاں کو

۴ دریا ۓ معانی سے بڑھا طبع ِ رواں کو عاشق ہو فصاحت بھی وہ دے حُسن بیاں کو

تحسیں کا سماوات سے غل تا بہ فلک ہو

ہر گوش بنے کان ِ ملاحت وہ نمک ہو

تعریف میں چشمے کو سمندر سے ملادوں

ذرے کی چمک مہرِ منور سے ملا دوں

۵

قطرے کو جو دوں آب تو گوہر سے ملا دوں

خاروں کو نزاکت میں گلِ تر سے ملا دوں

گلدستۂ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں

اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں

گر بزم کی جانب ہو توجہ دمِ تحریر

دیکھے نہ کبھی صحبتِ انجم فلکِ پیر

6

کھنچ جائے ابھی گلشنِ فردوس کی تصویر

ہوجائے ہوا بزمِ سلیماںؑ کی بھی توقیر

یوں تختِ حسینانِ معانی اتر آئے ہرچشم کو پریوں کا اکھاڑا نظر آئے

ساقی کے کرم سے ہو وہ دَور اور چلیں جام

ہر مست فراموش کرے گردشِ ایام

7

جس میں عوضِ نشّہ ہو کیفیّتٍٍٍِ انجام

صوفی کی زباں بھی نہ رہے فیض سے ناکام

ہاں بادہ کشو! پوچھ لو میخانہ نشیں سے

کوثر کی یہ موج آگئی ہے خلدِ بریں سے

وہ فرش ہو اس بزمِ اِرم رشک میں نایاب

دل عرش کا لوٹے کہ یہ راحت کا ہے اسباب

8

ہو جس کی سفیدی سے خجل چادرِ مہتاب

مخمل کو بھی حسرت ہو کہ میں اس پہ کروں خواب

آئینوں سے ہو چار طرف نور کا جلوہ دکھلائے ہر اک شمع رُخِ حور کا جلوہ

آؤں طرفِ رزم ابھی چھوڑ کے جب بزم

قطعِ سرِ اعدا کا ارادہ ہو جو بالجزم

۹

خیبر کی خبر لائے مری طبعِ اولو العزم

دکھلائے یہیں سب کو زباں معرکۂ رزم

جل جائیں عدو آگ بھڑکتی نظر آئے تلوار پہ تلوار چمکتی نظر آئے

مصرعے ہوں صف آرا صفتِ لشکرِ جرّار

نقطے ہوں جو ڈھالیں تو الف خنجرِ خونخوار

۱۰

الفاظ کی تیزی کو نہ پہنچے کوئی تلوار

مد آگے بڑھیں برچھیوں کو تول کے اک بار

غل ہو کبھی یوں فوج کو لڑتے نہیں دیکھا مقتل میں رن ایسا کبھی پڑتے نہیں دیکھا

ہو ایک زباں ماہ سے تا مسکنِ ماہی

جرأت کا دھنی تُو ہے یہ چلّائیں سپاہی

11

عالم کو دکھا دے برشِ سیفِ الٰہی

لاریب ترے نام پہ ہے سکۂ شاہی

ہر دم یہ اشارہ ہے دوات اور قلم کا تو مالک و مختار ہے اس طبل و عَلم کا

تائید کا ہنگام ہے یا حیدرِؑ صفدر

تو صاحبِ اِکرام ہے یا حیدرِؑ صفدر

۱۲

امداد ترا کام ہے یا حیدرِؑ صفدر

تیرا بھی کرم عام ہے یا حیدرِؑ صفدر

تنہا ترے اقبال سے شمشیر بکف ہوں سب ایک طرف جمع ہیں میں ایک طرف ہوں

ناقدریٔ عالم کی شکایت نہیں مولا

باہم گل و بلبل میں محبت نہیں مولا

۱۳

کچھ دفترِ باطل کی حقیقت نہیں مولا

میں کیا ہوں کسی روح کو راحت نہیں مولا

عالم ہے مکدّر کوئی دل صاف نہیں ہے اس عہد میں سب کچھ ہے پر انصاف نہیں ہے

نیک و بدِ عالم کا تامل نہیں کرتے خاروں کے لیے رخ طرفِ گل نہیں کرتے 14

عارف کبھی اتنا بھی تجاہل نہیں کرتے

تعریفِ خوش اِلحانیٔ بلبل نہیں کرتے

خاموش ہیں گو شیشۂ دل چُور ہوئے ہیں اشکوں کے ٹپک پڑنے سے مجبور ہوئے ہیں

الماس سے بہتر یہ سمجھتے ہیں خذف کو

اندھیر یہ ہے چاند بتاتے ہیں کلف کو

15

دُر کو تو گھٹاتے ہیں بڑھاتے ہیں صدف کو

کھو دیتے ہیں شیشے کے لیے درِ نجف کو

ضائع ہیں در و لعل و بدخشان و عدن کے مٹی میں ملاتے ہیں جواہر کو سخن کے

ہے لعل و گہر سے یہ دہن کانِ جواہر

ہیں بند مرصّع تو ورق خوانِ جواہر

16

ہنگام سخن کھلتی ہے دوکانِ جواہر

دیکھے اسے ہاں، ہے کوئی خواہانِ جواہر

بینائے رقوماتِ ہنر چاہیے اس کو سودا ہے جواہر کا نظر چاہیے اس کو

کیا ہوگئے وہ جوہریان ِ سخن اک بار

اب ہے کوئی طالب، نہ شناسا ، نہ خریدار

17

ہر وقت جو اس جنس کے رہتے تھے طلب گار

ہے کون ، دکھائیں کسے یہ گوہرِ شہوار

کس وقت یہاں چھوڑ کے ملکِ عدم آئے جب اُٹھ گئے بازار سے گاہک تو ہم آئے

خواہاں نہیں یاقوتِ سخن کا کوئی گو آج

اے باعثِ ایجادِ جہاں، خلق کے سرتاج

18

ہے آپ کی سرکار تو یا صاحبِ معراج

ہوجائے گا دم بھر میں غنی بندۂ محتاج

امید اسی گھر کی، وسیلہ اسی گھر کا دولت یہی میری، یہی توشہ ہے سفر کا

میں کیا ہوں، مری طبع ہے کیا اے شہِ شاہاں

شرمندہ زمانے سے گئے وائل

19

حسّانؔ فرزدقؔ ہیں یہاں عاجز و حیراں

قاصر ہیں سخن فہم و سخن سنج و سخن داں

کیا مدح کفِ خاک سے ہو نورِ خدا کی لکنت یہیں کرتی ہیں زبانیں فصحا کی

لا یعلم و لا علم کی کیا سحر بیانی

نہ دھن میں ہے جودت، نہ طبیعت میں روانی

20

حضرت پہ ہویدا ہے مری ہیچ مدانی

گویا ہوں، فقط ہے یہ تری فیض رسانی

میں کیا ہوں فرشتوں کی طلاقت ہے تو کیا ہے وہ خاص یہ بندے ہیں کہ مدّاح خدا ہے

تھا جوش کچھ ایسا ہی جو دعویٰ کیا میں نے

اک قطرۂ ناچیز کو دریا کیا میں نے

21

خود سر بہ گریباں ہوں کہ یہ کیا کیا میں نے

تقصیر بحل کیجئے بے جا کیا میں نے

ہاں سچ ہے کہ اتنی بھی تعلّی نہ روا تھی مولا یہ کلیجے کے پھپھولوں کی دوا تھی

مجرم ہوں کبھی ایسی خطا کی نہیں میں نے

دل سے کبھی مدحِ اُمرا کی نہیں میں نے

22

بھولے سے بھی آپ اپنی ثنا کی نہیں میں نے

تقلیدِ کلامِ جُہلا کی نہیں میں نے

نازاں ہوں محبت پہ امام ازلی کی ساری یہ تعلّی ہے حمایت سے علیؑ کی

ہر چند زباں کیا مری اور کیا مری تقدیر

منظور ہے اک بات میں دو فصل کی تحریر

23

دن رات وظیفہ ہے ثنا خوانیٔ شبیرؑ

مولا کی مدد کا متمنی ہے یہ دل گیر

یہ فصل نئے رنگ سے کاغذ پہ رقم ہو اک بزم ہو شادی کی تو اک صحبتِ غم ہو

شعبان کی تاریخِ سوم روزِ ولادت

دونوں میں بہر حال ہے تحصیلِ سعادت

24

اور ہے دہم ماہِ عزا یومِ شہادت

وہ بھی عملِ خیر ہے، یہ بھی ہے عبادت

مدّاح ہوں کیا کچھ نہیں اس گھر سے ملا ہے کوثر ہے صِلا اِس کا، بہشت اُس کا صلا ہے

مقبول ہوئی عرض، گنہ عفو ہوئے سب شامل ہوا افضالِ محمدؐ، کرمِ رب 25

امید بر آئی، مرا حاصل ہوا مطلب

ہوتے ہیں علم فوجِ مضامیں کے نشاں اب

پستی پہ ہیں سب رکنِ رکیں دینِ مبیں کے ڈنکے سے ہلا دیتا ہوں طبقوں کو زمیں کے

نازاں ہوں عنایت پہ شہنشاہِ زمن کی

چہرے کی بحالی سے قبا چست ہے تن کی

26

بخشی ہے رضا جائزۂ فوجِ سخن کی

لو بر طرفی پڑگئی مضمونِ کہن کی

اک فرد پرانی نہیں دفتر میں ہمارے بھرتی ہے نئی فوج کی لشکر میں ہمارے

ہاں اے فلکِ پیر! نئے سر سے جواں ہو

اے ظلمتِ غم! دیدۂ عالم سے نہاں ہو

27

اے ماہ شبِ چار دہم! نور فشاں ہو

اے روشنیٔ صبحِ شبِ عید! عیاں ہو

شادی ہے ولادت کی ید اللہ کے گھر میں خورشید اترتا ہے شہنشاہ کے گھر میں

اے شمس و قمر! اور قمر ہوتا ہے پیدا

مخدومۂ عالم کا پسر ہوتا ہے پیدا

۲۸

نخلِ چمنِ دیں کا ثمر ہوتا ہے پیدا

جو عرش کی ضو ہے وہ گہر ہوتا ہے پیدا

ہر جسم میں جاں آتی ہے مذکور سے جس کے نَو نورِ خدا ہوں گے عیاں نور سے جس کے

اے کعبۂ ایماں! تری راحت کے دن آئے

اے بیتِ مقدس! تری عزت کے دن آئے

29

اے رکن یمانی! تری شوکت کے دن آئے

اے چشمۂ زمزم! تری چاہت کے دن آئے

اے سنگِ حرم! جلوہ نمائی ہوئی تجھ میں اے کوہِ صفا! اور صفائی ہوئی تجھ میں

اے یثرب و بطحا ! ترے والی کی ہے آمد

عالم کی تغیری پہ بحالی کی ہے آمد

30 اے رتبہ ٔ اعلیٰ شہ عالی کی ہے آمد کہتے ہیں چمن ماہِ جلالی کی ہے آمد

یہ خانۂ کعبہ کے مباہات کے دن ہیں یعقوبؑ سے یوسفؑ کی ملاقات کے دن ہیں

اے ارضِ مدینہ تجھے فوق اب ہے فلک پر

خورشیدِ ملا تیرا ستارہ ہے چمک پر

31 رونق جو سما پر ہے وہ اب ہوگی سمک پر صدقے گلِ تر ہے ترے پھو لوں کی مہک پر

پر جس پہ فرشتوں کے بچھیں فرش وہی ہے جس خاک پہ ہو نورِ خدا عرش وہی ہے

یا ختمِ رُسُل ! گوہرِ مقصود مبارک

یا شاہِ نجف ! شادیِ مولود مبارک

32

یا نورِ خدا! رحمت معبود مبارک

یا خیرِ نساء! اخترِ مسعود مبارک

رونق ہو سدا، نور دوبالا رہے گھر میں اس ماہِ دو ہفتہ کا اجالا رہے گھر میں

اے اُمتیو! ہے یہ دمِ شکر گذاری

اللہ نے حل کر دیا مشکل کو تمھاری

33

ہر بار کرو سجدۂ شکریۂ باری

فردیں عملِ زشت کی اب چاک ہیں ساری

لکّھے گئے بندوں میں ولی ابنِ ولی کے ناجی ہوئے صدقے میں حسینؑ ابنِ علیؑ کے

اے ماہ معظّم ترے اقبال کے صدقے اتری بَرَکت فاطمہ ؑ کے لال کے صدقے 34

شوکت کے فدا ، عظمت و اِجلا ل کے صدقے

جس سال یہ پیدا ہوئے اُس سال کے صدقے

قرباں سحرِ عید اگر ہو تو بجا ہے نوروز بھی اس شب کی بزرگی پہ فدا ہے

قربان شبِ جمعۂ شعبانِ خوش انجام

قائم ہوا دین اور بڑھی رونقِ اسلام

35

پیدا ہوا جس شب کو محمدؐ کا گل اندام

ہم پلۂ صبحِ شبِ معراج تھی وہ شام

خورشید کا اِجلال و شرف بدر سے پوچھو کیا قدر تھی اس شب کی شبِ قدر سے پوچھو

وہ نورِ قمر اور وہ دُر افشانیٔ انجم

وہ چہچے رضواں کے ، وہ حوروں کا تبسم

36

تھی جس کے سبب روشنیٔ دیدۂ مردم

آپس میں وہ ہنس ہنس کے فرشتوں کا تکلم

میکال شگفتہ ہوئے جاتے تھے خوشی سے جبریلؑ تو پھولے نہ سماتے تھے خوشی سے

روشن تھا مدینے کا ہر اک کوچہ و بازار

کھولے ہوئے تھا آہوئے شب ناقۂ تاتار

37

جو راہ تھی خوشبو، جو محلّہ تھا وہ گلزار

معلوم یہ ہوتا تھا کہ پھولوں کا ہے انبار

گردوں کو بھی اک رشک تھا زینت پہ زمیں کی ہر گھر میں ہوا آتی تھی فردوسِ بریں کی

کیا شب تھی وہ مسعود و ہمایون و معظم

جبریل و سرافیل کو مہلت نہ تھی اک دم

۳۸

رخ رحمتِ معبود کا تھا جانب ِ عالم

بالائے زمیں آتے تھے اور جاتے تھے باہم

باشندوں کو یثرب کے خبر تھی نہ گھروں کی سب سنتے تھے آواز فرشتوں کے پروں کی

تھیں فاطمہؑ بے چین ادھر دردِ شکم سے

وابستہ تھی راحت جو اسی بی بی کے دم سے

39

منہ فق تھا اور آنسو تھے رواں دیدۂ نم سے

مضطر تھے علیؑ بنتِ پیمبرؐ کے الم سے

آرام تھا اک دم نہ شہِ قلعہ شکن کو پھرتے تھے لگائے ہوئے چھاتی سے حسنؑ کو

کرتے تھے دعا بادشہِ یثرب و بطحا

زہرا ؑ ہے کنیز اور مرا بچہ ترا بندہ

۴۰

راحم ہے تری ذاتِ مقدس، مرے مولا

آسان کر اے بارِ خدا مشکلِ زہراؑ

نادار ہے اور فاقہ کش و زار و حزیں ہے مادر بھی تشفی کے لئے پاس نہیں ہے

ناگاہ درِ حجرہ ہوا مطلعِ انوار

اسما نے علیؑ سے یہ کہا دوڑ کے اک بار

41

دکھلانے لگے نورِ تجلی در و دیوار

فرزند مبارک تمھیں یا حیدرِؑ کرار

اسپند کرو فاطمہؑ کے ماہ جبیں پر فرزند نہیں، چاند یہ اترا ہے زمیں پر

دیکھا نہیں اس طرح کا چہرہ کبھی پیارا

ماتھے پہ چمکتا ہے جلالت کا ستارہ

42

نقشہ ہے محمدؐ سے شہنشاہ کا سارا

اللہ نے اس گھر میں عجب چاند اتارا

تصویر رسولِ عربیؐ دیکھ رہے ہیں آنکھوں کی ہے گردش کہ نبیؐ دیکھ رہے ہیں

اُمِ سلمہ نے کہا یا شاہِ رسالت

لاریب کہ قرآنِ مبیں کی ہے یہ آیت

43

پیشانیٔ انور پہ ہے کیا نورِ امامت

تم شمعِ رسالت ہو تو یہ نورِ ہدایت

خوش ہو کہ نمازی ہے یہ دلبند تمہارا اللہ کے سجدے میں ہے فرزند تمہارا

مژدہ یہ سنا احمدِ مختار نے جس دم

آئے طرفِ خانۂ زہراؑ خوش و خرم

44

بس شکر کے سجدے کو جھکے قبلۂ عالم

فرمایا مبارک پسرِ ثانیٔ مریم!

چہرہ مجھے دکھلا دو مرے نورِ نظر کا ٹکڑا ہے یہ فرزند، محمدؐ کے جگر کا

کی عرض یہ اسما نے کہ اے خاصۂ داور!

ارشاد کیا احمدؐ مختار نے ہنس کر

۴۵

نہلا لو ں تو لے آؤں اُسے حجرے سے باہر

لے آ کہ نواسا ہے مرا طاہر و اطہر

اس چاند کو تاجِ سرِ افلاک کیا ہے یہ وہ ہے خدا نے جسے خود پاک کیا ہے

میں اس سے ہوں اور مجھ سے ہے یہ تُو نہیں ماہر

اسرار جو مخفی ہیں وہ اب ہوئیں گے ظاہر

۴۶ یہ نورِ الٰہی ہے، یہ ہے طیب و طاہر

یہ آیت ایماں ہے، یہ ہے حجت باہر

بڑھ کر مددِ سیدِ لولاک کرے گا کفار کے قصے کو یہی پاک کرے گا

جس دم یہ خبر مخبرِ صادق نے سنائی

بو اُس گل تازہ کی محمدؐ نے جو پائی

47 اسما اُسے اک پارچۂ نرم پہ لائی

ہنسنے لگے سرخی رُخِ پُر نور پہ آئی

منہ چاند سا دیکھا جو رسولِ عربی نے لپٹا لیا چھاتی سے نواسے کو نبیؐ نے

جان آگئی، یعقوبؑ نے یوسفؑ کو جو پایا

منہ ملنے لگے منہ سے بہت پیار جو آیا

48

قرآں کی طرح رحلِ دو زانو پہ بٹھایا

بوسے لیے اور ہاتھوں کو آنکھوں سے لگایا

دل ہل گیا کی جب کہ نظر سینہ و سر پر چوما جو گلا، چل گئی تلوار جگر پر

جوش آیا تھا رونے کا مگر تھام کے رِقّت

حیدرؑ سے یہ فرمایا کہ اے شاہِ ولایت!

49

اِس کان میں فرمائی اذاں، اُس میں اقامت

کیوں تم نے بھی دیکھی مرے فرزند کی صورت

پُر نور ہے گھر، تم کو ملا ہے قمر ایسا دنیا میں کسی نے نہیں پایا پسر ایسا

کیوں کر نہ ہو ، تم سا پدر اور فاطمہؑ سی ماں

کی عرض یہ حیدرؑ نے کہ اے قبلۂ ایماں

50

دو شمس و قمر کا ہے یہ اک نیرِ تاباں

حق اس پہ رکھے سایۂ پیغمبرِ ذیشاں

اعلیٰ ہے وہ سب سے جو مقامِ شہِ دیں ہے بندہ ہوں میں اور یہ بھی غلامِ شہِ دیں ہے

عالم میں ہے یہ سب بَرَکت آپ کے دم سے

تا عرش پہنچ جاتا ہے سر فیض قدم سے

51 سر سبزیٔ دنیا ہے اسی ابرِ کرم سے عزت ہے غلاموں کی شہنشاہِ اُمم سے

کچھ اس میں نہ زہراؑ کا ہے باعث نہ علیؑ کا سب ہے یہ بزرگی کہ نواسا ہے نبیؐ کا

فرمانے لگے ہنس کے شہِ یثرب و بطحا

کی عرض یہ حیدرؑ نے کہ اے سید والا

۵۲

بھائی کہو فرزند کا کچھ نام بھی رکھا

سبقت کروں حضرت پہ یہ مقدور ہے میرا

فرمایا کہ موقوف ہے یہ ربِّ عُلا پر میں بھی سبقت کر نہیں سکتا ہوں خدا پر

بس اتنے میں نازل ہوئے جبریلِ خوش انجام

پیارا ہے نہایت ہمیں زہراؑ کا گل اندام

53

کی عرض کہ فرماتا ہے یہ خالقِ علاّم

یا ختمِ رسلؐ! ہم نے “حُسینؑ” اِس کا رکھا نام

یہ حُسن میں سردارِ حسینانِ زمن ہے مشتق تو ہے احسان سے، تصغیر حسنؑ ہے

‘ح’ سے یہ اشارہ کہ یہ ہے حامیِ امت

‘ی’ اس کی بزرگی میں ہے یٰسیٖن کی آیت

۵۴

سمجھیں گے اسی ‘سین ‘کو سب سین ِسعادت

ہے ‘نون’ سے ظاہر کہ یہ ہے نور نبوت

ناجی ہے وہ اس نام کو لے گا جو دہن سے یہ حسن میں دس حصے زیادہ ہے حسنؑ سے

دو نور کے دریا کو جو ہم نے کیا اک جا

توقیر میں بے مثل، شجاعت میں ہے یکتا

55

تب اُس سے ہوا گوہر نایاب یہ پیدا

اب اور نہ ہوگا کوئی اس حُسن کا لڑکا

ہم جانتے ہیں جو نہیں ظاہر ہے کسی پر کام اس سے جو لینا ہے وہ ہے ختم اسی پر

فیاض نے کونین کی دولت اسے دی ہے

صبر اس کو عنایت کیا، عزت اسے دی ہے

56

دی ہے جو علیؑ کو وہ شجاعت اسے دی ہے

ان سب کے سوا اپنی محبت اسے دی ہے

اعلیٰ ہے، معظّم ہے، مکرّم ہے، ولی ہے ہادی ہے، وفادار ہے، زاہد ہے، سخی ہے

جب کرچکے ذکرِ کرم مالکِ تقدیر

کی صلّ علیٰ کہہ کے محمدؐ سے یہ تقریر

57

جبریلؑ نے پاس آن کے دیکھا رُخِ شبیرؑ

یا شاہ یہ مہر و تو ہے صاف آپ کی تصویر

جب کی ہے زیارت پئے تسلیم جھکے ہیں اس نور کو ہم عرش پہ بھی دیکھ چکے ہیں

قدسی ترے فرزند کی خدمت کے لئے ہیں

جنّ و پری و انس اطاعت کے لئے ہیں

58 میکال و سرافیل حفاظت کے لئے ہیں سامان یہ اس لال کی رحمت کے لئے ہیں

موجود ہے مرکب کے عوض دوش تمھارا زہراؑ کی جو گودی ہے تو آغوش تمھارا

ہے اس پہ ازل سے نظرِ رحمتِ معبود ہے ذاتِ خدا صاحبِ فیض و کرم و جود ۵۹

یہ پیشتر آدمؑ سے بھی تھا عرش پہ موجود

تھا خلقِ دو عالم سے یہی مطلب و مقصود

مظلومی و غربت ہے عجب نام پہ اس کے سب روتے ہیں اور روئیں گے انجام پہ اس کے

ہے یہ سببِ تہنیت و تعزیت اس دم

لپٹائے ہیں چھاتی سے جسے قبلۂ عالم

60

ہے شادی و غم گلشنِ ایجاد میں تو اَم

بے جرم و خطا ذبح کریں گے اِسے اظلم

گر حشر بھی ہوگا تو یہ آفت نہ ٹلے گی سجدے میں چھری حلقِ مبارک پہ چلے گی

ہوگا یہ محرم میں ستم اے شہِ ذی جاہ!

تاریخِ دہم، جمعہ کے دن، عصر کے وقت آہ

61

چھپ جائے گا آنکھوں سے اسی چاند میں یہ ماہ

نیزے پہ چڑھائیں گے سرِ پاک کو گمراہ

کٹ جائے گا سر جب تو ستم لاش پہ ہوں گے

گھوڑوں کے قدم سینۂ صد پاش پہ ہوں گے

چلائے محمدؐ کہ میں بسمل ہوا بھائی دل ہل گیا، برچھی سی کلیجے میں در آئی ۶۲

اے وائے اخی! کیا یہ خبر مجھ کو سنائی

یہ واقعہ سن کر نہ جیے گی مری جائی

ممکن نہیں دنیا میں دوا زخمِ جگر کی

کیوں کر کہوں زہراؑ سے خبر مرگِ پسر کی

جس وقت سنی فاطمہؑ نے یہ خبرِ غم

چلاّتی تھی سر پیٹ کے وہ ثانیِ مریمؑ

63 شادی میں ولادت کی بپا ہوگیا ماتم بیٹی پہ چھری چل گئی یا سیدِ عالم

خنجر کے تلے چاند سی تصویر کی گردن کٹ جائے گی ہے ہے مرے شبیرؑ کی گردن

ہے ہے کئی دن تک نہ ملے گا اِسے پانی

ہوجائیں گے اک جان کے سب دشمنِ جانی

64 ہے ہے یہ سہے گا تعبِ تشنہ دہانی ہے ہے میرا محبوب، مرا یوسفِ ثانی

پیراہنِ صد چاک کفن ہووے گا اس کا سر نیزہ پہ اور خاک پہ تن ہووے گا اس کا

صبر اپنا دکھانے کو یہ آئے ہیں جہاں میں

جنگل کے بسانے کو یہ آئے ہیں جہاں میں

65 یوں خلق سے جانے کو یہ آئے ہیں جہاںمیں امّاں کے رُلانے کو یہ آئے ہیں جہاں میں

ہم چاند سی صورت پہ نہ شیدا ہوئے ہوتے اے کاش مرےگھر میں نہ پیدا ہوئے ہوتے

دنیا مجھے اندھیر ہے اِس غم کی خبر سے

دامن پہ ٹپکتا ہے لہو دیدۂ تر سے

66

شعلوں کی طرح آگ نکلتی ہے جگر سے

بس آج سفر کر گئی شادی مرے گھر سے

جس وقت تلک جیتی ہوں ماتم میں رہوں گی مظلوم حسینؑ آج سے اِس کو میں کہوں گی

بیٹی کو یہ معلوم نہ تھی یا شہِ عالم

اب دن ہے چھٹی کا مجھے عاشورِ محرم

67

بچھے گی زچہ خانے کے اندر صفِ ماتم

تارے بھی نہ دیکھے تھے کہ ٹوٹا فلکِ غم

پوشاک نہ بدلوں گی نہ سر دھوؤں گی بابا چلّے میں بھی چہلم کی طرح روؤں گی بابا

حیدرؑ ہیں کہاں، آکے دلاسا نہیں دیتے

اس زخم کا مرہم مجھے بتلا نہیں دیتے

۶۸ زہراؑ کا برا حال ہے، سمجھا نہیں دیتے ہے ہے مجھے فرزند کا پُرسا نہیں دیتے

حجرے میں الگ بیٹھے ہیں کیوں چھوڑ کے گھر کو آواز تو سنتی ہوں کہ روتے ہیں پسر کو

پھر دیکھ کے فرزند کی صورت یہ پکاری

ہاں بعد مرے ذبح کریں گے تجھے ناری

۶۹

اے میرے شہید، اے مرے بیکس ترے واری

بنتی ہوں ابھی سے میں عزادار تمھاری

دل اور کسی شغل میں مصروف نہ ہوگا بس آج سے رونا مرا موقوف نہ ہوگا

مرجائے گا تو تشنہ دہن ہائے حسینا!

اک جان پہ یہ رنج و محن ہائے حسینا!

70

ہوجائے گا ٹکڑے یہ بدن ہائے حسینا!

کوئی تجھے دے گا نہ کفن ہائے حسینا!

گاڑیں گے نہ ظالم تنِ صد پاش کو ہے ہے رہواروں سے روندیں گے تری لاش کو ہے ہے

فرمایا محمدؐ نے کہ اے فاطمہ زہراؑ!

خالق نے دیا ہے اسے وہ رتبۂ اعلیٰ

۷۱

کیا مرضیٔ معبود سے بندے کا ہے چارا

جبریلؑ سوا کوئی نہیں جاننے والا

میں بھی ہوں فدا اِس پہ کہ یہ فدیۂ رب ہے یہ لال ترا خششِ امت کا سبب ہے

اس بات کا غم ہے اگر اے جانِ پیمبرؐ

جب قید سے ہووے گا رہا عابدِؑ مضطر

72 بے دفن و کفن رن میں رہے گا ترا دلبر تربت میں اُسے دفن کرے گا وہی آکر

ارواحِ رسولانِ زمن روئیں گی اس کو سرپیٹ کے زینبؑ سی بہن روئیں گی اس کو

جب چرخ پہ ہوئے گا عیاں ماہِ محرم

آئیں گے ملک عرش سے واں رونے کو باہم

73

ہر گھر میں بپا ہوئے گی اک مجلسِ ماتم

ماتم یہ وہ ماتم ہے کہ ہوگا نہ کبھی کم

پُر نور سدا اس کا عزا خانہ رہے گا خورشیدِ جہاں گرد بھی پروانہ رہے گا

کہہ کر یہ سخن روئے بہت احمدِؐ مختار

یوں لپٹے دہن کھو ل کے شبیرِؑ خوش اطوار

74

منہ رکھ دیا ہونٹوں پہ نواسے کے کئی بار

جس طرح کوئی دودھ کا ہوتا ہے طلبگار

جوش آگیا الفت کا دلِ شاہِ زمن میں مولا نے زباں دے دی نواسے کے دہن میں

یوں چوسی نواسے نے زبانِ شہِ والا

اللہ رے لعابِ دہنِ پاک کا رتبہ

75 جس طرح پیے دودھ مزے سے کوئی ماں کا نہریں عَسَل و شیر کی جاری ہوئیں گویا

شیریں ہیں لب و کام و دہن جس کے بیاں سے پوچھے وہ حلاوت کوئی حضرت کی زباں سے

سوجاتے تھے یوں شیرِ زباں چوس کے حضرت

بچپن میں تو خالق نے عطا کی تھی یہ نعمت

76

جو دودھ پہ ماں کے بھی نہ پھر ہوتی تھی رغبت

مرتے ہوئے پانی نہ ملا ہائے مصیبت

بے درد و الم شامِ غریباں نہیں گذری دنیا میں کسی کی کبھی یکساں نہیں گذری

کیا اوج ہے کیا رتبہ ہے اس بزمِ عزا کا

مشتاق ہے فردوسِ بریں یاں کی فضا کا

77 غل عرش سے ہے فرش تلک صلِّ علیٰ کا پانی میں بھی یاں کے ہے مزا آبِ بقا کا

دربار ِمعلیٰ ہے ولی ابنِ ولی کا جاری ہے یہ سب فیض حسین ؑ ابنِ علیؑ کا

یار ب مری فریاد میں تاثیر عطا کر

توفیقِ ثنا خوانیٔ شبیرؑ عطا کر

78

بلبل بھی پھڑک جائے وہ تقریر عطا کر

مدّاح کو اب خلد کی جاگیر عطا کر

دعویٰ نہ سخن کا ہے نہ اعجاز بیاں ہوں تو عالم و دانا ہے کہ میں ہیچ مداں ہوں

لو ، یاں سے بس اب مجلس و ماتم کا بیاں ہے

مظلومیِ سلطانِ دو عالم کا بیاں ہے

79 وہ فصلِ خوشی ختم ہوئی غم کا بیاں ہے

ہنگامۂ عاشورِ محرَّ م کا بیاں ہے

ہاں دیکھ لے مشتاق جو ہو فوجِ خدا کا لوبزم میں کھلتا ہے مرقّع شہدا کا

جو چاند سی تصویر ہے وہ خون سے تر ہے

دیکھو تو یہ کس باپ کا مظلوم پسر ہے

80

مجروح ہیں اعضا، کہیں تن ہے کہیں سر ہے

برچھی تو کلیجے میں ہے ، برچھی میں جگر ہے

ٹکڑے ہے جو دولھا ، یہ جگر بند ہے کس کا یہ تیر سے مارا ہوا فرزند ہے کس کا

دریا پہ جو سوتا ہے وہ کس کا ہے فدائی

گرمی میں عجب سرد جگہ سونے کو پائی

81

مرنے پہ بھی نکلی نہ تھی قبضے سے ترائی

کس شیر کا فر زند ہے یہ ، کس کا ہے بھائی

اس شان پہ کیونکر ہو گماں اور کسی کا شوکت سے یہ ظاہر ہے کہ بیٹا ہے علیؑ کا

ریتی پہ جو سوتے ہیں یہ دو چاند سے فرزند

جلوے میں مہِ چار دہم سے بھی ہیں دہ چند

82

کس باپ کے پیارے ہیں یہ کس ماں کے ہیں دلبند

یہ حیدرؑ و جعفرؑ کے کلیجے کے ہیں پیوند

پایا نہیں پانی بھی کسی تشنہ دہن نے قربان کیا ہے انھیں بھائی پہ بہن نے

اے خضرِ بیابانِ سخن ! راہبری کر اے درد! عطا لذتِ زخمِ جگری کر 83 اے نیّرِ تابانِ خرد ! جلوہ گری کر اے خوفِ الٰہی ! مجھے عصیاں سے بری کر

بندوں میں لکھا جاؤں امامِ ازلی کے آزاد ہوں صدقے میں حسینؑ ابنِ علیؑ کے

قدسی کو نہیں بار یہ دربار ہے کس کا سب جنسِ شفاعت ہے یہ بازار ہے کس کا 84 فردوس کو ہے رشک یہ گلزار ہے کس کا خود بِکتا ہے یوسفؑ یہ خریدار ہے کس کا

ملتی ہے کہاں مفت متاعِ حسن ایسی دیکھی نہیں انجم نے کبھی انجمن ایسی

مجلس کا زہے نور، خوشا محفلِ عالی

عاشق ہیں سب اس کے جو ہے کونین کا والی

85 حیدرؑ کے محبو ں سے کوئی جا نہیں خالی

اثنا عشری، پنجتنی، شیعۂ غالی

ششدر نہ ہوکیوں چرخ، عجب جلوہ گری ہے یہ بزمِ عزا آج ستاروں سے بھری ہے

ان میں جو مسن ہیں وہ پیمبرؐ کے ہیں مہماں جو تازہ جواں ہیں علی اکبرؑ کے ہیں مہماں 86 اور جو متوسط ہیں وہ حیدرؑ کے ہیں مہماں شیعوں کے پسر سب علی اصغرؑ کے ہیں مہماں

ہر خورد و کلاں عاشقِ شاہِ مدنی ہے پانچ اگلیوں کی طرح سے وہ پنجتنی ہے

ارشادِ نبیؐ ہے کہ مددگار ہیں میرے حضرت کا سخن ہے کہ عزادار ہیں میرے 87

فرماتے ہیں حیدرؑ کہ یہ غمخوار ہیں میرے

میں ان کا ہوں طالب یہ طلبگار ہیں میرے

یہ آج اگر رو کے ہمیں یاد کریں گے ہم قبر میں ان لوگوں کی امداد کریں گے

غم میں مِرے بچوں کے یہ سب کرتے ہیں فریاد

بستی مرے شیعوں کے رہے خلق میں آباد

88

اللہ سلامت رکھے ان لوگوں کی اولاد

یہ حشر کے دن آتشِ دوزخ سے ہوں آزاد

مرتا ہے کوئی گر تو بکا کرتا ہوں میں بھی اُس کے لئے بخشش کی دعا کرتا ہوں میں بھی

مردم کے لئے واجبِ عینی ہے یہ زاری

ہے وقتِ معیّن پہ ادا طاعتِ باری

89

رونا ہی وسیلہ ہے شفاعت کا ہماری

یہ خیر ہے وہ خیر جو ہر وقت ہے جاری

رولو کہ یہ وقت اور یہ صحبت نہ ملے گی جب آنکھ ہوئی بند تو مہلت نہ ملے گی

مہلت جو اجل دے تو غنیمت اسے جانو آنسو نکل آئیں تو عبادت اسے جانو 90

آمادہ ہو رونے پہ سعادت اسے جانو

ایذا ہو جو محفل میں تو راحت اسے جانو

فاقے کیے ہیں دھوپ میں لب تشنہ رہے ہیں آقا نے تمھارے لئے کیا ظلم سہے ہیں

تکلیف کچھ ایسی نہیں، سایہ ہے ، ہوا ہے

کچھ گرمیٔ عاشور کا بھی حال سنا ہے

91

پانی ہے خُنُک، مرِوحَہ کش باد ِ صبا ہے

سر پیٹنے کا وقت ہے، ہنگامِ بکا ہے

گزری ہے بیاباں میں وہ گرمی شہِ دیں پر بھُن جاتا تھا دانہ بھی جو گرتا تھا زمیں پر

لوں چلتی تھی ایسی کہ جلے جاتے تھے اشجار پانی پہ دَد و دام گرے پڑتے تھے ہر بار ۹۲

تھا عنصرِ خاکی پہ گمانِ کُرَہِ نار

سب خلق تو سیراب تھی پیاسے شہِ ابرار

خاک اڑ کے جمی جاتی تھی زلفوں پہ، قبا پر اس دھو پ میں سایہ بھی نہ تھا نورِ خدا پر

قطرے جو پسینے کے ٹپک پڑتے تھے ہربار

شاہد المِ فاقہ پہ ہے زردیٔ رخسار

93

ثابت یہی ہوتا تھا کہ ہیں اختر و سیّار

بے آبی سے اودے تھے لب لعل ِ گہر بار

دنیا میں ترستے رہے وہ آبِ رواں کو جن ہونٹوں نے چوسا تھا محمدؐ کی زباں کو

دنیا بھی عجب گھر ہے کہ راحت نہیں جس میں

وہ دوست ہے یہ دوست ، مروّت نہیں جس میں

94

وہ گل ہے یہ گل ، بوئے محبت نہیں جس میں

وہ شہد ہے یہ شہد حلاوت نہیں جس میں

بے درد و الم شامِ غریباں نہیں گزری دنیا میں کسی کی کبھی یکساں نہیں گزری

گودی ہے کبھی ماں کی کبھی قبر کا آغوش

سرگرمِ سخن ہے کبھی انساں ، کبھی خاموش

۹۵ گل پیرہن اکثر نظر آتے ہیں کفن پوش گہ تخت ہے اور گاہ جنازہ بسرِ دوش

اک طَور پہ دیکھا نہ جواں کو، نہ مسن کو شب کو تو چھپر کھٹ میں ہیں تابوت میں دن کو

شادی ہو کہ اندوہ ہو، آرام ہو یا جَور

ماتم کی کبھی فصل ہے، عشرت کا کبھی دور

96

دنیا میں گزر جاتی ہے انساں کی بہر طور

ہے شادی و ماتم کا مرقع جو کرو غور

کس باغ پہ آسیبِ خزاں آنہیں جاتا گل کون سا کھِلتا ہے جو مرجھا نہیں جاتا

ہے عالَمِ فانی کی عجب صبح، عجب شام

نازوں سے پلا فاطمہ زہراؑ کا گل اندام

97

گہ غم کبھی شادی، کبھی ایذا، کبھی آرام

وا حسرت و دردا کہ وہ آغاز ، یہ انجام

راحت نہ ملی گھر کے تلاطم سے دہم تک مظلوم نے فاقے کیے ہفتم سے دہم تک

ریتی پہ عزیزوں کا مرقع تو ہے ابتر

فرزند نہ مسلؑم کے ، نہ ہمشیر کے دلبر

98

شہ کا ہے یہ نقشہ کہ ہیں تصویر سے ششدر

قاسمؑ ہیں نہ عباسؑ ، نہ اکبرؑ ہیں نہ اصغرؑ

سب نذر کو دربارِ پیمبرؑ میں گئے ہیں رخصت کو اکیلے شہِ دیں گھر میں گئے ہیں

منظور ہے پھر دیکھ لیں ہمشیر کی صورت سجّاد ؑ سے کچھ کہنے ہیں اَسرارِ امامت 99 پھر لے گئی ہے گھر میں سکینہؑ کی محبت بانوئے دوعالم سے بھی ہے آخری رخصت

مطلوب ہے یہ زیبِ بدن رختِ کہن ہو تابعدِ شہادت وہی ملبوس کفن ہو

خیمے میں مسافر کا وہ آنا تھا قیامت

آنا تو غنیمت تھا پہ جانا تھا قیامت

100

اک ایک کو چھاتی سے لگانا تھا قیامت

تھوڑا سا وہ رخصت کا زمانا تھا قیامت

واں بین، ادھر صبرو شکیبائی کی باتیں افسانۂ ماتم تھیں بہن بھائی کی باتیں

حضرت کا وہ کہنا کہ بہن صبر کرو صبر وہ کہتی تھی کیونکر نہ میں روؤں صفت ِابر ۱۰۱ امت کے لئے والدہ صاحب نے سہے جبر تم پہنو کفن اور نہ بنے ہائے مری قبر

لٹتے ہوئے اماں کا گھران آنکھوں سے دیکھوں ہے ہے تہِ خنجر تمھیں کن آنکھو ں سے دیکھوں

اس عمر میں تھوڑے غمِ جانکاہ اٹھائے

اشک آنکھوں سے اماں کے جنازے پہ بہائے

102

آنسو نہ تھمے تھے کہ پدر خوں میں نہائے

ٹکڑے دلِ شبرؑ کے لگن میں نظر آئے

حضرت کے سوا اب کوئی سر پر نہیں بھائی انساں ہوں کلیجہ مرا پتھر نہیں بھائی

ہر شخص کو ہے یوں تو سفر خلق سے کرنا

ان آنکھو ں سے دیکھا ہے بزرگوں کا گزرنا

103

دشوار ہے اک آن مسافر کا ٹھہرنا

ہے سب سے سوا ہائے یہ مظلومی کا مرنا

صدقے گئی یوں رن کبھی پڑتے نہیں دیکھا اک دن میں بھرے گھر کو اجڑ تے نہیں دیکھا

ہے ہےتمھیں لے کر میں کہاں چھپ رہوں بھائی

کس دشتِ پُر آشوب میں قسمت مجھے لائی

104

لٹتی ہے مرے چار بزرگوں کی کمائی

یارب کہیں مرجائے ید اللہ کی جائی

زہرا ؑ کا پسر وقتِ جدائی مجھے روۓ سب کو تو میں روئی ہوں یہ بھائی مجھے روۓ

زینب ؑ کی وہ زاری وہ سکینہ کا بلکنا

وہ چاند سا منہ اور وہ بُندے کا چمکنا

105

وہ ننھی سی چھاتی میں کلیجے کا دھڑکنا

حضرت کا وہ بیٹی کی طرف یاس سے تکنا

حسرت سے یہ ظاہر تھا کہ معذور ہیں بی بی پیدا تھا نگاہوں سے کہ مجبور ہیں بی بی

وہ کہتی تھی بابا ہمیں چھاتی سے لگاؤ ہم کُڑھتے ہیں لو آنکھوں سے آنسو نہ بہاؤ 106 فرماتے تھے شہ آؤ نا ، جانِ پدر آؤ خوشبو تو ذرا گیسوئے مشکیں کی سنگھاؤ

کوثر پہ ہے تم بن نہیں آرام چچا کو ہم جاتے ہیں کچھ دیتی ہو پیغام چچا کو؟

بی بی کہو کیا حال ہے اب ماں کا تمھاری

جب سے سوئے جنت گئی اکبرؑ کی سواری

107

کس گوشہ میں بیٹھی ہیں ، کہاں کرتی ہیں زاری

دیکھا نہ انھیں گھر میں ہم آئے کئی باری

تھی سب کی محبت انھیں بیٹے ہی کے دم تک کیا آخری رخصت کو بھی آئیں گی نہ ہم تک

کس جا ہیں طلب ہم کو کریں یا وہی آئیں کچھ ہم سنیں ، کچھ حال ہمیں اپنا سنائیں 108

ممکن نہیں اب وہ ہمیں یا ہم انھیں پائیں

اک دم کے مسافر ہیں ہمیں دیکھ تو جائیں

بعد اپنے یہ لوٹا ہوا گھر اور لٹے گا افسوس کہ ایک عمر کا ساتھ آج چھٹے گا

غش میں جو سنی بانوئے مضطر نے یہ تقریر

سر ننگے اٹھی چھوڑ کے گہوارۂ بے شیر

109

ثابت ہوا مرنے کو چلے حضرتِ شبیرؑ

چلّائی مجھے ہوش نہ تھا یا شہِ دلگیر

جاں تن سے کوئی آن میں اب جاتی ہے آقا یہ خادمہ رخصت کے لئے آتی ہے آقا

یہ سن کے بڑھے چند قدم شاہِ خوش اقبال تھا قبلۂ عالم کا بھی اس وقت عجب حال 110

قدموں پہ گری دوڑ کے وہ کھولے ہوئے بال

روتے تھے غضب آنکھوں پہ رکھے ہوئے رومال

فرماتےتھے جانکاہ جدائی کا الم ہے اُٹھو تمھیں روحِ علی اکبرؑ کی قسم ہے

وہ کہتی تھی کیونکر میں اٹھوں اے مرے سرتاج

سر پر جو نہ ہوگا پسرِ صاحبِ معراج

111

والی! انھی قدموں کی بدولت ہے مرا راج

چادر کے لئے خلق میں ہو جاؤں گی محتاج

چھوٹے جو قدم مرتبہ گھٹ جائے گا میرا قربان گئی ، تخت الٹ جائے گا میرا

یاں آئی میں جب خانۂ کسریٰ ہوا برباد کی عقدہ کشائے دو جہاں نے مری امداد 112

وہ پہلی اسیری کی اذیت ہے مجھے یاد

حضرت کے تصدُّق میں ہوئی قید سے آزاد

لونڈی سے بہو ہو گئی زہراؑ و علی ؑ کی قسمت نے بٹھایا مجھے مسند پہ نبی ؐ کی

چھبّیس برس تک نہ چھُٹا آپ کا پہلو ہر شب رہے تکیہ سر ِ اقدس کا جو بازو 113 اب ہجر ہے تقدیر میں یا سیّدِ ِ خوش خو ہے ہے اسے اب رسّی سے باندھیں گے جفاجو

سرپر نہ ردا ہوگی تو مر جاؤں گی صاحب چھپنے کو میں جنگل میں کدھر جاؤں گی صاحب

حضرت نے کہا کس کا سدا ساتھ رہا ہے

دارِ مِحَن اس دار کو داور نے کہا ہے

114

ہر عاشق و معشوق نے یہ داغ سہا ہے

ہر چشم سے خونِ جگر اس غم میں بہا ہے

فرقت میں عجب حال تھا خالق کے ولی کا ساتھ آٹھ برس تک رہا زہراؑ و علیؑ کا

سو سو برس اس گھر میں محبت سے رہے جو

کچھ مرگ سے چارہ نہیں اے بانوۓ خوش خو

115 اس موت نے دم بھر میں جدا کردیا ان کو ہے شاق فلک کو کہ رہیں ایک جگہ دو

کس کس پہ زمانے نے جفا کی نہیں صاحب اچھوں سے کبھی اس نے وفا کی نہیں صاحب

لازم ہے خدا سے طلبِ خیر بشر کو آنا ہے تمھیں بھی وہیں جاتے ہیں جدھر کو 116 تھامے گا تباہی میں وہی رانڈ کے گھر کو

وارث کی جدائی میں پٹکتے نہیں سر کو

کھولے گا وہ رسّی سے بندھے ہاتھ تمھارے سجّادؑ سا بیٹا ہے جواں ساتھ تمھارے

زینب ؑ کو تو دیکھو کہ ہیں کس دکھ میں گرفتار

تنہا ہیں کہ بے جاں ہوئے دو چاند سے دلدار

117 ایسا کوئی اس گھر میں نہیں بیکس و ناچار دنیا سے گیا اکبرِؑ ناشاد سا غمخوار

بیٹے بھی نہیں گود کا پالا بھی نہیں ہے ان کو تو کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہے

یہ کہہ کے کچھ آہستہ کہا گوشِ پسر میں اندھیر زمانہ ہوا بانو کی نظر میں 118 بیمار کے رونے سے قیامت ہوئی گھر میں غش ہوگئی زینب ؑ یہ اٹھا درد جگر میں

ٹھہرا نہ گیا پھر شہِ والا نکل آئے تنہا گئے روتے ہوئے تنہا نکل آئے

کچھ پڑھ کے پھرے جانبِ قبلہ شہِ بے پر تھرّاتے ہوئے ہاتھوں پہ عمامے کو رکھ کر 119 کج کی طرفِ دوشِ یمیں گردنِ انور کی حق سے مناجات کہ اے خالقِ اکبر

حُرمت ترے محبوب کی دنیا میں بڑی ہے کر رحم کہ آل اُن کی تباہی میں پڑی ہے

یارب یہ ہے سادات کا گھرتیرے حوالے بیکس کا ہے بیمار پسر تیرے حوالے 120

رانڈیں ہیں کئی خستہ جگر تیرے حوالے

سب ہیں ترے دریا کے گہر تیرے حوالے

عالم ہے کہ غربت میں گرفتارِ بلا ہوں میں تیری حمایت میں انھیں چھوڑ چلا ہوں

میرے نہیں بندے ہیں ترے اےمرے خالق

باندھے ہیں کمر ظلم و تعدّی پہ منافق

121 بستی ہو کہ جنگل تو ہی حافظ، تو ہی رازق نے دوست ہے دنیا، نہ زمانہ ہے موافق

حرمت ہے ترے ہاتھ امامِ ازلی کی دو بیٹیاں دو بہوئیں ہیں اس گھر میں علیؑ کی

میں یہ نہیں کہتا کہ اذیت نہ اٹھائیں

ناموس لٹیں ، قید ہوں اور شام میں جائیں

122

یا اہلِ ستم آگ سے خیمے نہ جلائیں

مہلت مرے لاشے پہ بھی رونے کی نہ پائیں

بیڑی میں قدم طوق میں عابدؑ کا گلا ہو جس میں ترے محبوب کی امت کا بھلا ہو

یہ کہہ کے گریبانِ مبارک کو کیا چاک

میّت ہوئے شبیرؑ کفن بن گئی پوشاک

۱۲۳

اور ڈال لی پیراہن پُر نور میں کچھ خاک

بس فاتحۂ خیر پڑھا بادِلِ غم ناک

مڑ کر نہ کسی دوست نہ غم خوار کو دیکھا پاس آئے تو روتے ہوئے رہوار کو دیکھا

گردان کے دامن علی اکبرؑ کو پکارے

لختِ دلِ شبرؑ کدھر اس وقت سدھارے

124

تھا مو مرے گھوڑے کی رکاب اے مرے پیارے

بھائی ہیں کہاں ہاتھ میں دیں ہاتھ ہمارے

آتے نہیں مسلم ؑ کے جگر بند کہاں ہیں دونوں مری ہمشیر کے فرزند کہاں ہیں

تنہائی میں اک ایک کو حضرت نے پکارا گھوڑے پہ چڑھا خود اسد اللہ کا پیارا 125

کون آئے کہ فردوس میں تھا قافلہ سارا

اونچا ہوا افلاکِ امامت کا ستارا

شوخی سے فرس پاؤ ں نہ رکھتا تھا زمیں پر غل تھا کہ چلا قطبِ زماں عرشِ بریں پر

شبدیز نے چھل بل میں عجب ناز دکھایا

زیور نے عجب حُسنِ خدا ساز دکھایا

126

ہر گام پہ طاؤ س کا انداز دکھایا

فتراک نے اوجِ پرِ پرواز دکھایا

تھا خاک پہ اک پاؤں تو اک عرشِ بریں پر غل تھا کہ پھر اترا ہے براق آج زمیں پر

بجلی کو نہ تھا اس کی جِلو لینے کا یارا

اُڑنے میں نہ آہو کبھی جیتا، نہ چکارا

127

رہوار کو دُلدُل کا چلن یاد تھا سارا

شہباز بھی بازی اسی جاں باز سے ہارا

طاؤس کا کیا ذکر، پری سے بھی حسیں تھا سایہ تھا کہیں دھوپ میں اور آپ کہیں تھا

جانباز نے طے کی عجب انداز سے وہ راہ وہ رعب، وہ شوکت، وہ نہیبِ شہِ ذی جاہ 128 لے آئی سلیماں کو ہوا تا صف ِ جنگاہ دُلدُل کو اُڑاتے ہوئے آئے اسد اللہ

غل تھا یہ محمدؐ ہیں کہ خالق کے ولی ہیں اقبال پکارا کہ حسینؑ ابنِ علیؑ ہیں

نصرت نے صدا دی کہ مددگارِ جہاں ہیں گویا ہوئی ہمت کہ محمدؐ کی زباں ہیں 129 صَولت نے کہا تاجِ سرِ کون و مکاں ہیں غربت نے کہا فاقہ کش و تشنہ دہاں ہیں

سَطوَت یہ پکاری بخدا شیر یہی ہیں بولی ظفر، اللہ کی شمشیر یہی ہیں

عکسِ رُخِ روشن جو چمکتا ہوا آیا جنگل میں پری بن گیا ہر نخل کا سایہ 130 ذرّوں نے شہِ شرق کے پہلو کو دبایا کرسی سے زمیں کہتی تھی دیکھا مرا پایا

تھی چاندنی خورشیدِ فلک شرم سے گُم تھا وہ روزِ دہم رشکِ شبِ چار دہم تھا

تنہا تھے پہ اللہ ری جلالت شہِ دیں کی تھرّاتے تھے سب دیکھ کے صَولت شہِ دیں کی 131 گردوں پہ ملک تکتے تھے صورت شہِ دیں کی غل تھا کہ یہ آخر ہے زیارت شہِ دیں کی

خود حُسن یہ کہتا تھا کہ شمعِ سحری ہوں شبیرؑ کا کیا کوچ ہے ، میں بھی سفری ہوں

ہاں دیکھ لو تنویرِ جبینِ شہِ والا ہے برقِ تجلی اسی مہتاب کا ہالا ۱۳۲ یہ حسن میں ہے ماہِ دوہفتہ سے دوبالا اندھیر ہے پر جب نہ رہا اس کا اجالا

آنکھوں سے نہاں ہوگی جو یہ نور کی صورت ہوجائیں گی صبحیں شبِ دیجور کی صورت

گر لاکھ جلائے گا دل اپنا کوئی دل سوز گردش میں رہیں گے جو مہ و مہر شب و روز 133 اِس کعبۂ ابرو سے نہ ہوگا شمع افروز دیکھیں گے یہ زلفیں، نہ یہ رخسارِ دل افروز

کلیاں تو بہت باغ میں نرگِس کی کھِلیں گی ڈھونڈیں گی جو مردم کو تو آنکھیں نہ ملیں گی

خوبی دہن و لب کی سمجھنے میں سب حیراں ملنا در و یاقوت کا مشکل نہیں چنداں 134 روئیں گے جو یاد آئے گا یہ سینۂ تاباں دیکھو گے زمانے میں نہ ایسے لب و دنداں

یہ دُرِّ گراں مایہ صدف میں نہ ملیں گے کیا ذکر صدف کا ہے ، نجف میں نہ ملیں گے

چھانے گی اگر بادِ صبا خاک چمن کی ضَو دیکھ رگِ گردنِ سردارِ زمن کی 135 خوشبو کہیں پائے گی نہ اس سیبِ ذقن کی پرتو سے زمیں غیرتِ آئینہ ہے رن کی

سوزِ غمِ فُرقت کو نہ بیگانوں سے پوچھو اس شمع کے بجھ جانے کو پروانوں سے پوچھو

یہ صدر جو الہامِ الہی کا ہے مصدر دیندار سمجھتے ہیں اسے مصحفِ اکبر 136 دل علم کا، اسلام کا گھر، شرع کا مظہر ہو جائے گا وقفِ تبر و نیزہ و خنجر

کاٹیں گے ہر اک جزوِ تنِ شاہِ اُمم کو کھل جائے گا شیرازۂ قرآں کوئی دم کو

ان ہاتھو ں کو اب لائیں گے مشکل میں کہاں سے

جاری تھی عجب خیر شہِ کون و مکاں سے

۱۳۷

زخمی انھیں کردیں گے لعیں تیغ و سناں سے

ہیہات چلا عقدہ کشا آج جہاں سے

یوں تجھ پہ نہ ان ہاتھوں کا احوال کھُلے گا مشکل کوئی پڑ جائے گی تب حال کھُلے گا

لو مومنو!سن لو شہِ ذی جاہ کی تقریر دیکھو نہ مٹاؤ مجھے اے فرقۂ بے پیر 138 حضرت یہ رجز پڑھتے تھے تولے ہوئے شمشیر میں یوسفِ کنعانِ رسالت کی ہوں تصویر

واللہ تعلّی نہیں یہ کلمۂ حق ہے عالم کے مرقعے میں حُسیؑن ایک ورق ہے

واللہ جہاں میں مرا ہمسر نہیں کوئی ہاں میرے سوا شافعِ محشر نہیں کوئی 139 محتاج ہوں پر مجھ سا تونگر نہیں کوئی یوں سب ہیں مگر سبطِ پیمبرؐ نہیں کوئی

باطل ہے اگر دعوَََئے اعجاز کرے گا کس بات پہ دنیا میں کوئی ناز کرے گا

ہم وہ ہیں کہ اللہ نے کوثر ہمیں بخشا اقبالِ علیؑ، خلقِ پیمبرؐ ہمیں بخشا 140 سرداریٔ فردوس کا افسر ہمیں بخشا قدرت ہمیں دی، زور ہمیں ، زر ہمیں بخشا

ہم نور ہیں گھر طْورِ تجلی ہے ہمارا تختِ بنِ داؤد مصلیّٰ ہے ہمارا

نانا وہ کہ ہیں جن کے قدم عرش کے سرتاج ماں ایسی کہ سب جس کی شفاعت کے ہیں محتاج 141 قوسین مکاں، ختمِ رُسُل، صاحبِ معراج باپ ایسا، صنم خانوں کو جس نے کیا تاراج

لڑنے کو اگر حیدر ِؑ صفدر نہ نکلتے بت گھر سے خدا کے کبھی باہر نہ نکلتے

کس جنگ میں سینے کو سپر کرکے نہ آئے کس فوج کی صف زیر و زبر کرکے نہ آئے 142 کس مرحلۂ صعب کو سر کرکے نہ آئے تھی کون سی شب جس کو سحر کرکے نہ آئے

تھا کون جو ایماں تہِ صمصام نہ لایا اُس شخص کا سر لائے جو اسلام نہ لایا

اصنام نہ کچھ کم تھے نہ کفار تھے تھوڑے بدکیشوں نے سجدے بھی کئے ہاتھ بھی جوڑے 143 طاقت تھی کہ عُزّیٰ کو کوئی لات سے توڑے بے توڑے وہ بت حیدرِ صفدر نے نہ چھوڑے

کعبے کو صفا کردیا خالق کے کرم سے نکلے اسد ا للہ اذاں دے کے حرم سے

ہے کون سا وہ فخر کہ زیبا نہیں ہم کو واللہ کسی چیز کی پروا نہیں ہم کو 144 وہ کیا ہے جو اللہ نے بخشانہیں ہم کو کیا بات ہے خود خواہشِ دنیا نہیں ہم کو

غافل ہے وہ دنیا کے مزے جس نے لئے ہیں بابا نے مرے تین طلاق اس کو دیے ہیں

جو چاہیں جسے بخش دیں ہم ہاتھ اٹھاکے خالی کوئی جاتا نہیں دروازے پہ آکے 145 انگلی نہیں کنجی ہیں یہ اسرارِ خدا کے بھر دیتے ہیں فاقوں میں بھی کا سے فقرا کے

سردیتے ہیں سائل کو جگر بندِ علیؑ ہیں فیاض کے بندے ہیں سخی ابنِ سخی ہیں

اس عہد میں مالک اسی تلوار کے ہم ہیں فرزند محمدؐ سے جہاں دار کے ہم ہیں 146 جرّار پسر حیدرِؑ کرّار کے ہم ہیں وارث شہِ لولاک کی سرکار کے ہم ہیں

کچھ غیرِ کفن ساتھ نہیں لے کے گئے ہیں تابوتِ سکینہؑ بھی ہمیں دے کے گئے ہیں

یہ فرق پہ عمامۂ سردارِ زمن ہے یہ جوشنِ داؤدؑ ہے جو حافظِ تن ہے 147 یہ تیغِ علیؑ ہے، یہ کمر بندِ حسنؑ ہے یہ پیرہنِ یوسفِ کنعانِ مِحَن ہے

دکھلائیں سند دستِ رسولِ عربیؐ کی یہ مہرِ سلیماں ہے یہ خاتم ہے نبیؐ کی

دیکھو تو یہ ہے کون سے جرار کی تلوار دریانے بھی دیکھی نہیں اس دھار کی تلوار 148 کس شیر کے قبضے میں ہے کرار کی تلوار بجلی کی تو یہ بجلی ہے ، تلوار کی تلوار

قہر و غضب اللہ کا ہے کاٹ نہیں ہے کہتے ہیں اسے موت کا گھر گھاٹ نہیں ہے

دم لے کہیں رک کر وہ رونی نہیں اس میں جز حرفِ ظفر اور نشانی نہیں اس میں 149 چلنے میں سبک تر ہے گرانی نہیں اس میں جل جاؤ گے سب، آگ ہے پانی نہیں اس میں

چھوڑے گی نہ زندہ اسے جو دشمنِ دیں ہے نابیں نہیں، غصے سے اجل چیں بہ جبیں ہے

کچھ بس نہ چلے گا جو یہ خونخوار چلے گی تھم جائے گی اک بار تو سو بار چلے گی 150 سر اُڑنے کی آندھی دمِ پیکار چلے گی اُگلے گا لہو چرخ وہ تلوار چلے گی

میداں سے کہیں بھاگ کے جانا نہ ملے گا دم لینے کا دنیا میں ٹھکانہ نہ ملے گا

ہم سے کوئی اعلیٰ نہیں عالی نسبی میں ہم مصحفِ ناطق ہیں زبانِ عربی میں 151 طفلی سے حمائل رہے آغوشِ نبیؐ میں تفسیر ہیں قرآن کی ہم تشنہ لبی میں

مخفی ہیں جو رتبے وہ عیاں ہو نہیں سکتے خود ہم سے شرف اپنے بیاں ہو نہیں سکتے

سب قطرے ہیں گر فیض کے دریا ہیں تو ہم ہیں حق جس کا ہے جامع وہ ذخیرہ ہیں تو ہم ہیں 152 ہر نقطۂ قرآں کے شناسا ہیں تو ہم ہیں افضل ہیں توہم، عالم و دانا ہیں تو ہم ہیں

تعلیمِ ملک عرش پہ تھا وِرد ہمارا جبریل ؑ سا استاد ہے شاگرد ہمارا

گر فیضِ ظہورِ شہِ لولاک نہ ہوتا کچھ خاکے طبقے میں بجز خاک نہ ہوتا 153 بالائے زمیں گنبدِ افلاک نہ ہوتا ہم پاک نہ کرتے تو جہاں پاک نہ ہوتا

یہ شور اذاں کا سحر و شام کہاں تھا ہم عرش پہ جب تھے تو یہ اسلام کہاں تھا

محسن سے بدی، ہے یہی احساں کا عوض آہ گمرا ہ کے بہکانے سے روکو نہ مری راہ 154 دشمن کے ہواخواہ ہوئے دوست کے بد خواہ لو اب بھی مسافر کو نکل جانے دو للہ

مل جائے گی اک دم میں اماں رنج و بلاسے میں ذبح سے بچ جاؤں گا ، تم قہرِ خدا سے

بستی میں کہیں مسکن و ماویٰ نہ کروں گا صابر ہوں کسی کا کبھی شکوہ نہ کروں گا 155 یثرب میں بھی جانے کا ارادہ نہ کروں گا اس ظلم کا میں ذکر بھی اصلا نہ کروں گا

رونا نہ چھُٹے گا کہ عزیزوں سے چھُٹا ہوں جو پوچھے گا کہہ دوں گا کہ جنگل میں لُٹا ہوں

اعدا نے کہا قہرِ خدا سے نہیں ڈرتے فریادِ رسولؐ ِ دوسرا سے نہیں ڈرتے 156 ناری ہیں تو دوزخ کی جفا سے نہیں ڈرتے خاتونِ قیامت کی بُکا سے نہیں ڈرتے

ہم لوگ جدھر دولتِ دنیا ہے، اُدھر ہیں اللہ سے کچھ کام نہیں بندۂ زر ہیں

حضرت نے کہا خیر، خبردار صفوں سے! بجلی سا گزر جاؤ ں گا ہر بار صفوں سے 157 آیا غضب اللہ کا، ہشیار صفوں سے کب پنجتنی رکتے ہیں دو چار صفوں سے

غربت کے چلن دیکھ چکے، حرب کو دیکھو لو بندۂ زر ہو تو مری ضرب کو دیکھو

یاں گوشۂ عزلت خمِ شمشیر نے چھوڑا کس قہر سے گھر موت کی تصویر نے چھوڑا ۱۵۸ واں سہم کے چلے کو ہر اک تیر نے چھوڑا ساحل کو صفِ لشکرِ بے پیر نے چھوڑا

عنقائے ظفر فتح کا در کھول کے نکلا شہبازِ اجل صید کو پر تول کے نکلا

جلوہ کیا بدلی سے نکل کر مہِ نَو نے تڑپا دیا بجلی کو فرس کی تگ و دَو نے ۱۵۹ دکھلائے ہوا میں دو سر اک شمع کی لَو نے تاکا سپرِ مہر کو شمشیر کی ضو نے

اعدا تو چھپانے لگے ڈھالوںمیں سروں کو جبریلؑ نے اونچا کیا گھبرا کے پروں کو

بالا سے جو آئی وہ بلا جانبِ پستی چلنے لگی یک دست جو شمشیر دو دستی 160 بس نیست ہوئی دم میں ستمگاروں کی ہستی معلوم ہو ا لٹ گئی سب کفر کی بستی

زوراُن کے ہراک ضرب میں اللہ نے توڑے ٹوٹیں جو صفیں بت اسد اللہ نے توڑے

کاٹے کبھی منہ، سرکبھی گردن سے اُڑائے یوں روح کے طائر قفسِ تن سے اُڑائے 161 گہ دستِ قوی بازوئے دشمن سے اُڑائے جس طرح پرندوں کو کوئی بن سے اُڑائے

جانبازوں کا یہ حال تھا شمشیر کے ڈرسے جس طرح ہرن بھاگتے ہیں شیر کے ڈر سے

دم میں اثرِ قہرِ الٰہی نظر آیا جس صف میں زرہ پوش سپاہی نظر آیا 162 دوزخ کی طرف قافلہ راہی نظر آیا چورنگ وہیں صورتِ ماہی نظر آیا

بھاگی تھی ہوا خوف سے شمشیرِ دو دم کے مچھلی بھی نہ لہراتی تھی دامن میں علم کے

چلنے میں عجب تیغ نے انداز نکالے طاقت تھی کہ ناوک قدر انداز نکالے 163 سرلے گئی گردن سے نئے ناز نکالے سوفار کا کیا منہ تھا جو آواز نکالے

بازو تو جفا کیشوں کے شانوں سے جدا تھا تیروں سے کماں، تیر کمانوں سے جدا تھا

بجلی سی جو گر کر صفِ کفّار سے نکلی گہہ ڈھال میں ڈوبی، کبھی تلوار سے نکلی 164 آوازِ ‘بِزَن’ تیغ کی جھنکار سے نکلی در آئی جو پیکاں میں تو سوفار سے نکلی

تھے بند خطا کاروں پہ در امن و اماں کے چلے بھی چھُپے جاتے تھے گوشوں میں کماں کے

افلاک پہ چمکی کبھی، سر پر کبھی آئی گہہ پڑگئی سینے پہ، جگر پر کبھی آئی ۱۶۵ کوندی کبھی جوشن پہ، سپر پر کبھی آئی تڑپی کبھی پہلو پہ ، کمر پر کبھی آئی

طے کر کے پھری کون سا قصہ تھا فرس کا باقی جو تھا کچھ کاٹ وہ حصہ تھا فرس کا

بے پاؤں جدھر ہاتھ سے چلتی ہوئی آئی دم بھر میں وہ سو رنگ بدلتی ہوئی آئی 166 ندّی اُدھر اک خوں کی ابلتی ہوئی آئی پی پی کے لہو لعل اگلتی ہوئی آئی

ہیرا تھا بدن رنگ زمرّد سے ہرا تھا جوہر نہ کہو، پیٹ جواہر سے بھرا تھا

زیبا تھا دمِ جنگ پری وش اسے کہنا اس اوج پہ وہ سرکو جھکائے ہوئے رہنا ۱۶۷ معشوق بنی سرخ لباس اس نے جو پہنا جوہر تھے کہ پہنے تھی دلھن پھولوں کا گہنا

سیبِ چمنِ خلد کی بُو باس تھی پھل میں رہتی تھی وہ شبیرؑ سے دولھا کی بغل میں

سر پٹکے تو موج اس کی روانی کو نہ پہنچے بجلی کی تڑپ شعلہ فشانی کو نہ پہنچے 168 قلزم کا بھی دھارا ہو تو پانی کو نہ پہنچے خنجر کی زباں تیغ زبانی کو نہ پہنچے

دوزخ کی زبانوں سے بھی آنچ اس ک ی بُری تھی برچھی تھی، کٹاری تھی، سروہی تھی ، چھری تھی

موجود بھی ہر غول میں اور سب سے جدا بھی اک گھاٹ پہ تھی آگ بھی، پانی بھی ، ہوا بھی 169 دم خم بھی ، لگاوٹ بھی،صفائی بھی، ادا بھی امرت بھی ، ہلاہل بھی، مسیحابھی، قضا بھی

کیا صاحبِ جو ہر تھی عجب ظرف تھا اس کا موقع تھا جہاں جس کا وہیں صرف تھا اس کا

ہر ڈھال کے پھولوں کو اُڑا تا تھا پھل اس کا ڈر جاتی تھی منہ دیکھ کےہر دم اجل اس کا 170 تھا لشکرِ باغی میں از ل سے عمل اس کا تھا قلعۂ چار آئینہ گو یا محل اس کا

اس در سے گئی کھول کے وہ در نکل آئی گہہ صدر میں بیٹھی ، کبھی باہر نکل آئی

تیروں پہ گئی برچھیوں والوں کی طرف سے پھر آئی سواروں کے رسالوں کی طرف سے 171 جا پہنچی کمانداروں پہ بھالوں کی طرف سے منہ تیغوں کی جانب کی ڈھالوں کی طرف سے

بس ہو گیا دفتر نظری نام و نسب کا لاکھوں تھے تو کیا، دیکھ لیا جائزہ سب کا

سرپر جو سپر کو کسی خود سر نے اٹھایا تلوار نے کیا دیو کو اژدر نے اٹھایا 172 نوکوں پہ اُسے تیغِ دوپیکر نے اٹھایا لڑنے کا مزا خوب ستمگر نے اٹھایا

یوں پھینک دیا خاک پہ سر کاٹ کے تن سے اُگلے کوئی جس طرح نوالے کو دہن سے

ہر ہاتھ کے پرزے تھے تو ہر ڈھا ل کےٹکڑے کاٹے زرہِ جسمِ بد افعال کے ٹکڑ ے 173 پہنچےتھے کہ تھے قرعۂ رمّال کے ٹکڑے تڑپی جو وہ مچھلی تو ہوئے جال کے ٹکڑے

مقتل کی جو سرحد سے چلی شام میں ٹھہری کیا ماہیٔ دریائے ظفر دام میں ٹھہری

جوشن پہ گئی کاٹ کے بازو نکل آئی ہر زخم سے اس طرح وہ مہرو نکل آئی 174 سینے سے بڑھی، چیر کے پہلو نکل آئی معلوم ہوا پھول سے خوشبو کل آئی

گر پڑتی تھی بجلی جدھر آتی تھی لچک کر کیا منہ تھا کہ مر جاتے تھے بسمل بھی تڑپ کر

پہنچی جو سپر تک تو کلائی کو نہ چھوڑا شوخی کو، شرارت کو، لڑائی کو نہ چھوڑا 175 ہر ہاتھ میں ثابت کسی گھائی کو نہ چھوڑا تیزی کو ، رکھائی کو، صفائی کونہ چھوڑا

اعضاۓ بدن قطع ہوئے جاتے تھے سب کے قینچی سی زباں چلتی تھی ، فقرے تھے غضب کے

چڑھتی ہے یہ ندّی تو اترتی ہے بمشکل اس گھاٹ سے کشتی بھی گزرتی ہے بمشکل 176 جب باڑھ پہ آئے تو ٹھہرتی ہے بمشکل دھارے میں جو ڈوبے تو ابھرتی ہے بمشکل

پانی یہ نہیں بحر ہے اس تیغ کے بر میں چکّر میں وہ رہتا ہے جو آجائے بھنور میں

طوفاں غضب آبِ دمِ شمشیر سے اٹّھا ضربت کا نہ لنگر کسی تدبیر سے اٹّھا ۱۷۷ وار اُس کا تبر سے نہ کسی تیر سے اٹّھا اک موجۂ خوں لشکرِ بے پیر سے اٹّھا

اللہ رے تلاطم کہ زمیں ہل گئی رن کی ضربہ جو پڑا ڈوب گئیں کشتیاں تن کی

وہ نعرۂ شیرانہ، وہ حملے، وہ تہوّر جِنّات کو حیرت تھی، ملائک کو تحیُّر 178 تھرّاتے تھے ساونت، لرزتے تھے بہادر وہ سرعتِ شبدیز کہ تھکتا تھا تصوُّر

مارا اُسے دو لاکھ میں جاکر جسے تا کا سب ٹھاٹ تھا ضرغامِ الٰہی کی وغا کا

چار آئینہ والوں کو نہ تھا مرگ سے چارا کہتے تھے زرہ پوش نہیں جنگ کا یارا 179 چورنگ تھے سینے تو کلیجہ تھا دو پارا بچ جائیں تو جانیں کہ ملی جان دوبارا

جوشن کو سنا تھا کہ حفاظت کا محل ہے اس کی نہ خبر تھی کہ یہی دامِ اجل ہے

بدکیش لڑائی کا چلن بھول گئے تھے سب حیلہ گری عہد شکن بھول گئے تھے 180 ناوک فگنی تیر فگن بھول گئے تھے بے ہوشی میں ترکش کا دہن بھول گئے تھے

معلوم نہ تھا جسم میں جاں ہے کہ نہیں ہے چلاّتے تھے قبضے میں کماں ہے کہ نہیں ہے

ڈر ڈر کے قدِ راست سنانوں نے جھکائے ہٹ ہٹ کے عَلم رن میں جوانوں نے جھکائے 181 دب دب کے سرِ عجز کمانوں نے جھکائے سر خاک پہ گر گر کے نشانوں نے جھکائے

غل تھا کہ پناہ اب ہمیں یا شاہِ زماں دو پھیلائے تھے دامن کو پھریرے کہ اماں دو

شہ کہتے تھے ہے باڑھ پہ دریا نہ رُکے گا بے فتح و ظفر دلبرِ زہراؑ نہ رُکے گا ۱۸۲ اس موج پہ آفت کا طمانچہ نہ رُکے گا تا غرق نہ فرعون ہو، موسیٰؑ نہ رُکے گا

ہے بحرِ غضب نام ہے قہرِ صمد اس کا رُکنے کا نہیں شام تلک جزر و مد اس کا

اس صف سے گئے، بیچ سے اُس غول کے نکلے انبوہ سے یوں تیغِ دوسر تول کے نکلے 183 جو فوج چڑھی منہ پہ اُسے رول کے نکلے گویا درِ خیبر کو علیؑ کھول کے نکلے

اک زلزلہ تھا نُہ فلک و ہفت طبق کو ہر بار الٹ دیتے تھے لشکر کے ورَق کو

بڑھتے تھے جو تولے ہوئے شمشیرِ دو دم کو تھا خوف سے لرزہ عرب و روم و عجم کو ۱۸۴ ہاتھوں کو ظفر چومتی تھی، فتح قدم کو اک شیر نے روکا تھا چھ لاکھ اہلِ ستم کو

دنیا جو بچی روحِ محمدؐ کا سبب تھا شبیرؑ اگر رحم نہ کرتے تو غضب تھا

لڑتے تھے مگر غیظ سے رحمت تھی زیادہ نانا کی طرح خاطرِ اُمت تھی زیادہ 185 شفقت بھی نہ کم تھی جو شجاعت تھی زیادہ بیٹوں سے غلاموں کی محبت تھی زیادہ

تلوار نہ ماری جسے منہ موڑتے دیکھا آنسو نکل آئے جسے دم توڑتے دیکھا

فرماتے تھے اعدا کو ترائی سے بھگا کر دعوت یوں ہی کرتے ہیں مسافر کو بُلا کر 186 کیوں چھوڑ دیا گھاٹ کو، روکو ہمیں آکر ہم چاہیں تو پانی بھی پئیں نہر میں جاکر

پر صبر کے دریا ہیں ہمیں پیاس نہیں ہے اب زہر یہ پانی ہے کہ عباسؑ نہیں ہے

بھولی نہیں اکبرؑ کی ہمیں تشنہ دہانی وہ سوکھے ہوئے ہونٹ، وہ اعجاز بیانی 187 وہ چاند سا رُخ، وہ قد و قامت، وہ جوانی دکھلا کے زباں مانگتے تھے نزع میں پانی

کس سے کہیں جو خون جگر ہم نے پیا ہے بعد ایسے پسر کے بھی کہیں باپ جِیا ہے

یہ کہہ کے سکینہؑ کے بہشتی کو پکارے لڑتے ہوئے آ پہنچے ہیں دریا کے کنارے 188 الفت ہمیں لے آئی ہے پھر پاس تمھارے عباسؑ غش آتا ہے ہمیںپیاس کے مارے

ان سوکھے ہوئے ہونٹوں سے ہونٹوں کو ملا دو کچھ مشک میں پانی ہو تو بھائی کو پلا دو

لیٹے ہوئے ہو ریت میں کیوں منہ کو چھپائے غافل ہو، برادر تمھیں کس طرح جگائے 189 اُٹھو کہ سکینہؑ کو یہاں ہم نہیں لائے ہے عصر کا وقت اے اسد اللہ کے جائے

خوش ہوں گا میں آگے جو عَلَم لے کے بڑھو گے کیا بھائی کے پیچھے نہ نماز آج پڑھو گے

کہہ کر یہ سخن رونے لگا بھائی کو بھائی جس فوج نے رن چھوڑ دیا تھا وہ پھر آئی ۱۹۰ تلوار سے مہلت ستم ایجادوں نے پائی دو روز کے پیاسے پہ گھٹا شام کی چھائی

بارش ہوئی تیروں کی ولی ابن ولی پر سب ٹوٹ پڑے ایک حسینؑ ابن علیؑ پر

کی شہؑ نے جو سینے پہ نظر پونچھ کے آنسو ہر سمت سے تیغیں جو لگاتے تھے جفا جو 191 سب چھاتی سے تھے پہلوؤں تک تیر سہ پہلو سالم نہ کلائی تھی، نہ شانہ تھا، نہ بازو

برگشتہ زمانہ تھا شہِ تشنہ گلو سے پھل برچھیوں کے سرخ تھے سید کے لہو سے

زخموں سے جو وہ دستِ مبارک ہوئے بیکار بس کعبۂ ایماں کے قریب آگئے کُفار ۱۹۲ ہر نے پہ دھری شہ نے سپر، میان میں تلوار مظلوم کو تیغیں جو لگانے لگے اک بار

یوں شاہ کو گھیرے تھے پرے فوجِ ستم کے جس طرح صف آرا تھے صنم گرد حرم کے

سجدے کی جگہ چھوڑی نہ تیروں نے جبیں پر کثرت تھی جراحت کی رُخِ قبلۂ دیں پر ۱۹۳ تقدیر نے لکھے کئی نقش ایک نگیں پر ہر جا خطِ شمشیر تھی قرآنِ مبیں پر

تلواروں کے ٹکڑے تھے ہر اک جزوِ بدن پر مجموعہ پریشان تھا، سی پارۂ تن پر

حضرت کی یہ صورت تھی، فرس کا تھا یہ احوال گھائل تھی جبیں، خون میں ڈوبی ہوئی تھی یال ۱۹۴ منہ تیغوں سے زخمی تھا، بدن تیروں سے غربال گردن کا وہ کینڈا،نہ وہ شوخی تھی، نہ وہ چال

ہر سمت سے تیروں کا جو مینہ اس پہ پڑا تھا پر کھولے ہوئے دھوپ میں طاؤس کھڑا تھا

جھک جاتے تھے ہرنے پہ جو غش میں شہِ ابرار چمکار کے فرماتے تھے شبیرؑ دل افگار 195 منہ پھیر کے آقا کی طرف تکتا تھا رہوار اب خاتمۂ جنگ ہے اے اسپ وفادار

اُتریں گے بس اب تجھ سے چھُٹا ساتھ ہمارا نے پاؤں ترے چلتے ہیں نے ہاتھ ہمارا

زخمی ہیں نہیں اب تری تکلیف گوارا کیا بات تری خوب دیا ساتھ ہمارا ۱۹۶ گرتے ہیں سنبھلنے کا ہمیں اب نہیں یارا آ پہنچا ہے منزل پہ ید اللہ کا پیارا

تو جس میں پلا ہے وہ گھر اک دم میں لٹے گا بچپن کا ہمارا ترا اب ساتھ چھٹے گا

گھیرے ہیں عدو خیمے تلک جا نہیں سکتے مشکل ہے سنبھلنا تجھے دوڑا نہیں سکتے ۱۹۷ کھوئی ہے جو طاقت اسے اب پا نہیں سکتے پہلو ترے مجروح ہیں ٹھکرا نہیں سکتے

حیواں کو بھی دکھ ہوتا ہے زخموں کے تعب کا میں درد رسیدہ ہوں، مجھے درد ہے سب کا

کس طرح دکھاؤں کہ ترے زخم ہیں کاری گھوڑے نے سنیں درد کی باتیں جو یہساری ۱۹۸ میں نے تو کسی دن تجھے قمچی نہیں ماری دو ندیاں اشکوں کی ہوئی آنکھوں سے جاری

حیواں کو بھی رقت ہوئی اس لطف و کرم پر منہ رکھ دیا مڑ کر شہ والا کے قدم پر

گردن کو ہلایا کہ مسیحا نہ اتریے تلوار لیے گرد ہیں اعدا، نہ اتریے 199 دم ہے ابھی مجھ میں، مرے آقا! نہ اتریے سب فوج چڑھی آتی ہے مولا! نہ اتریے

اے وائے ستم صدر نشیں خاک نشیں ہو حسرت ہے کہ مرجاؤں تو خالی مرا زیں ہو

شہ نے کہا تا چند مسافر سے محبت بتلا تو سنبھلنے کی بھلا کون ہے صورت 200 وہ تو نے کیا، ہوتا ہے جو حقِ رفاقت نہ ہاتھ میں، نہ پاؤں میں، نہ قلب میں طاقت

بہتر ہے کہ اتروں، نہیں تیورا کے گروں گا پھٹ جائیں گے سب زخم جو غش کھاکے گروں گا

ہے عصر کا ہنگام مناسب ہے اترنا گو مرحلۂ صعب ہے دنیا سے گذرنا 201 اس خاک پہ ہے شکر کا سجدہ ہمیں کرنا سجدے میں کٹے سر کہ سعادت ہے یہ مرنا

طاعت میں خدا کی نہیں صرفہ تن و سر کا ذی حق ہمیٖں اس کے ہیں کہ ورثہ ہے پدر کا

اترا یہ سخن کہہ کے وہ کونین کا والی اس دکھ میں نہ یاور تھے نہ مولا کے موالی ۲۰۲ خاتم سے نگیں گر گیا زیں ہو گیا خالی خود ٹیک کے تلوار کو سنبھلے شہِ عالی

کپڑے تنِ پُر نور کےسب خوں میں بھرے تھے اک ہاتھ کو رہوار کی گردن پہ دھرےتھے

منہ یال پہ رکھ رکھ کے یہ فرماتے تھے ہر بار اب ذبح کریں گے ہمیں اک دم میں ستمگار 203 جا ڈیوڑھی پہ اے صاحب معراج کے رہوار زینبؑ سے یہ کہنا کہ سکینہؑ سے خبردار

رہنا وہیں جب تک مرا سر تن سے جدا ہو لے جائیو بانو کو جدھر حکم خدا ہو

یہ کہہ کے جو سر کا اسد اللہ کا جایا فریاد نے زہراؑ کی دو عالم کو ہلایا ۲۰۴ اک تیر جبیں پر بنِ اشعث نے لگایا پیکانِ سہ پہلو عقبِ سر نکل آیا

تڑپے نہ، زہے صبر امام دو جہاں کا سوفار نے بوسہ لیا سجدے کے نشاں کا

حضرت نے جبیں سے ابھی کھینچا نہ تھا وہ تیر ابرو تک اتر کر جو اُٹھی ظلم کی شمشیر 205 جو سر پہ لگی تیغِ بنِ مالکِ بے پیر سر تھام کے بس بیٹھ گئےخاک پہ شبیرؑ

چلاّئے ملک دیکھ کے خوں سبطِ نبیؐ کا تھا حال یہی مسجدِ کوفہ میں علیؑ کا

بیٹھے جو سوئے قبلہ دو زانو شہ بے پر تھے ذکر خدا میں کہ لگا تیر دہن پر 206 جھکتے تھے کبھی غش میں اُٹھاتے تھے کبھی سر یاقوت بنے ڈوب کے خوں میں لبِ اطہر

بہہ آیا لہو تا بہ زنخدانِ مبارک ٹھنڈے ہوئے دو گوہرِ دندان مبارک

نیزے کا بن وہب نے پہلو پہ کیا وار ناوک بنِ کامل کا کلیجے کے ہوا پار ۲۰۷ کاندھے پہ چلی ساتھ زُرارہ کی بھی تلوار بازو میں در آیا تبرِ خولیِ خوں خوار

تلوار سے وقفہ نہ ملا چند نفس کا دم رُک گیا نیزہ جو لگا ابنِ اَنس کا

تھرّا کے جھکے سجدۂ حق میں شہِ ابرار خوش ہو کے پکارا پسرِ سعدِ جفا کار 208 شورِ دُہلِ فتح ہوا فوج میں اِک بار اے خولی و شیث و بنِ ذی الجوشن جرّار

آخر ہے بس اب کام امامِ ازلی کا سر کاٹ لو سب مل کے حسینؑ ابن علیؑ کا

لکھتا ہے یہ راوی کہ بپا ہوگیا محشر اک سیدہ نکلی درِ خیمہ سے کھلے سر 209 بارہ ستم ایجاد بڑھے کھینچ کے خنجر برقع تھا نہ مقنع تھا، نہ موزے تھے نہ چادر

چلاّئے لعیں خوف سے ہاتھ آنکھوں پہ دھر کے لو فاطمہؑ آتی ہے بچانے کو پسر کے

ہلتا تھا فلک ہاتھوں سے جب پیٹتی تھی سر فرماتی تھیں فضہ جو اُڑھا دیتی تھی مِعجَر 210 بجلی کی طرح کوندتے تھے کانوں کے گوہر فریادی ہوں فریادی کو زیبا نہیں چادر

سر ننگے یوں ہی جاؤں گی روضہ پہ نبیؐ کے پردہ تو گیا ساتھ حسینؑ ابن علیؑ کے

اُس بھیڑ میں آکر وہ ضعیفہ یہ پکاری گھوڑا تو ہے کُوتَل کدھر اُتری ہے سواری 211 اے سبطِ نبیؐ! ابنِ علیؑ! عاشقِ باری بھیّا! بہن آئی ہے زیارت کو تمھاری

مرجاؤں گی حضرت کو جو پانے کی نہیں میں بے آپ کے دیکھے ہوئے جانے کی نہیں میں

اس وقت شہِ دیں نے سنی زاریٔ خواہر فرمایا اشارے سے کہ اے شمرِ ستمگر 212 جس وقت کہ تھا حلقِ مبارک تہِ خنجر زینبؑ نکل آئی ہے ٹھہر جا ابھی دم بھر

آخر تو سفر ہوتا ہے اس دارِ محن سے دو باتیں تو کرلینے دے بھائی کو بہن سے

منہ پھیر لیا شمر نے خنجر کو ہٹا کے تڑپاتی ہو بھائی کو بہن بلوے میں آکے 213 دی شہ نے یہ زینبؑ کو صدا اشک بہا کے دیکھوگی کسے، ہم تو ہیں پنجہ میں قضا کے

اُٹھ سکتے نہیں جسم پہ تلواریں پڑی ہیں گھبراؤ نہ ، اماں مرے پہلو میں کھڑی ہیں

جاؤ صفِ ماتم پہ کرو گریہ و زاری فردوس سے آ پہنچی ہے نانا کی سواری 214 گھر سے نکل آئے نہ سکینہؑ مری پیاری بس اب نہ سنو گی بہن! آواز ہماری

رونا ہے تو رو لیجو مرے لاشے پہ آکے ہٹ جاؤ کہ سر کٹتا ہے سجدے میں خدا کے

دوڑی یہ صدا سن کے ید اللہ کی جائی پر ہائے بہن بھائی تلک آنے نہ پائی 215 چلاّئی کہ دیدار تو میں دیکھ لوں بھائی یاں ہوگئی سید کے تن و سر میں جدائی

قاتل کو نہ گردن کو نہ شمشیر کو دیکھا پہنچیں تو سناں پر سرِ شبیرؑ کو دیکھا

سر دیکھ کے بھائی کا وہ بیکس یہ پکاری خنجر سے یہ گردن کی رگیں کٹ گئیں ساری 216 دُکھ پائی بہن آپ کی مظلومی کے واری تم مرگئے پوچھے گا خبر کون ہماری

آفت میں پھنسی آل رسولِ عربی کی اب جائیں کہاں بیٹیاں زہراؑ و علیؑ کی

ہے ہے پسرِ صاحبِ معراج حسینا گویا کہ علیؑ قتل ہوئے آج حسینا 217 پردیس میں بیووں کا لٹا راج حسینا ہے ہے کفن و گور کے محتاج حسینا

پُرسا بھی ترا دینے کو آتا نہیں کوئی لاشہ بھی زمیں پر سے اُٹھاتا نہیں کوئی

قربان بہن اے مرے سرور، مرے سید اے فاقہ کش و بیکس و بے پر مرے سید 218 مذبوحِ قضا کشتۂ خنجر، مرے سید پنجے میں ہے قاتل کے ترا سر، مرے سید

دیتے ہو صدا کچھ، نہ بلاتے ہو بہن کو کس یاس سے تکتے چلے جاتے ہو بہن کو

بھیّا! مرا کوئی نہیں، تم خوب ہو آگاہ ڈھارس تھی بڑی آپ کی اے سیدِ ذی جاہ ۲۱۹ احمدؐ ہیں نہ زہراؑ، نہ حسنؑ ہیں نہ ید اللہ چھوڑا مجھے جنگل میں یہ کیا قہر کیا آہ

چلتے ہوئے کچھ مجھ سے نہ فرما گئے بھائی بہنا کو نجف تک بھی نہ پہنچا گئے بھائی

اے میرے شہید، اے مرے ماں جائے برادر کس طرح مرے دل کو قرار آئے برادر ۲۲۰ کس سے ترا لاشہ بہن اُٹھوائے برادر پانی بھی نہ قاتل نے دیا ہائے برادر

انساں پہ ستم یوں کبھی انساں نہیں کرتا حیواں کو بھی پیاسا کوئی بے جاں نہیں کرتا

خاموش انیؔس اب کہ ہے دل سینے میں بے چین اب حق سے دعا مانگ کہ اے خالقِ کونین 221 لکھے نہیں جاتے ہیں جو زینبؑ نے کیے بین حاسد ہیں بہت دل کو عطا کر مرے اب چین

ناحق ہے عداوت انھیں اس ہیچ مداں سے بے تیغ کٹے جاتے ہیں شمشیرِ زباں سے

Share: